Teesra Kinara
Teesra Kinara
افسانوں کا مجموعہ نوجوان مصنف جناب مدثر حسین ملک صاحب کے قلم سے۔
تبصرہ:
کتاب کا نام: تیسرا کنارہ (افسانے)
مصنف: مدثر حسین ملک
سن اشاعت:مئی،1720
صفحات: 111
قیمت: 004روپے
پبلشر: گفتگو پبلیکیشنز، اسلام آباد
مصنف اس کتاب کے موضوعات (تصوف ،عشقِ حقیقی ،انسانی نفسیات،اور انسانی فطرت )کو درج ذیل ایسے بہت سے جملوںمیں پَرو کر خوبصورتی کا پہاڑ عبور کرتےہیں کہ قاری لفظوں کے سحر میں کھو سا جاتا ہے۔
’’وہ کون ہو سکتا ہے جو آنکھوں کی چلمن میں اس طرح آن بیٹھے کہ ہر طرف وہی نظر آئے؟وہ کون ہو سکتا ہے جو رات کے آخری پہر دل کی وادی میں یوں قبضہ جما لے کہ پھر کسی اور کا گزر وہاں سے ناممکن ہو جائے؟وہ تو بس خدا ہی ہو سکتا ہے ‘‘
’’وقت تو فاتح ہے۔دنیا کو زیر کر رکھا ہے اس نے۔پھر بھلا تمہیں کیوں لگا کہ تم نے وقت کو شکست دے دی۔‘‘
’’موت!میں نے چونک کر اسے دیکھا۔سورج ڈھل چکا تھا اور مغرب کے افق پر ہلکی سی لالی باقی تھی۔۔۔ہاں موت۔۔جیسے موت زندگی کی حفاظت کرتی ہے،زندگی سے محض پانچ فٹ کے فاصلے پر رہ کر….‘‘
زیرِ تبصرہ کتاب ’’تیسرا کنارا‘‘ ۳۱ مختصر افسانوں پر مشتمل ہے جن میں سے چند قاری کے ادبی ذوق کو مہمیز کرتے نظر آتے ہیں۔ بطورِ خاص ’’خواہش اور دعا،تیسرا کنارا،خاموش زہر،محبت کیا ہے؟،اور آخری یاد‘‘ کا ذکر ناگزیر ہے۔ یہ افسانے جہاں ایک طرف زندگی کی تلخ حقیقتوں کا عکس پیش کرتے ہیں وہیں دوسری جانب ان میں عشقِ حقیقی اور تصوف کا رنگ سامنے آیا ہے۔ مدثر حسین نے اس استعارے کو لفظی پیکر عطا کرتے ہوئے اپنے احساسات اور واردات قلبی کی شکل میں صفحۂ قرطاس پر بکھیرا ہے۔ یہی ان کے فن کا کمال ہے۔
افسانے کے فن پر بات کریں تومصنف اس معیار پر بھی پورے اترتے ہیں۔ موصوف موضوع و مقام کے مطابق زبان و بیان کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں وحدت تاثر بھی پایا جاتا ہے۔ ان کے افسانوں کا اختتام اتنا افسانوی ہوتا ہے کہ کہانی کاغذ پر ختم ہوتے ہی قاری کے ذہن میں چلنا شروع ہو جاتی ہے۔
مدثر حسین ملک کا اندازِتحریر مکالمانہ ہے جو اس بات کا غماز ہے کہ موصوف رچا ہوا فنی شعور رکھتے ہیں۔ان جملہ فنی محاسن کے درمیان جو ایک بات کھٹکتی ہے وہ مصنف کا اسلوب ہے جس میں خالص ہندی الفاظ اور جدید اردو لفاظی کی آمیزش ہے۔افسانہ ’’تیسرا کنارا‘‘ مدثر حسین ملک کا ایک کامیاب افسانہ ہے۔ یہ حکمتِ خداوندی سے لبریز پیالہ ہے جو لفظ بہ لفظ اللہ تعالیٰ کی حکمت کو آشکارا کرتا ہے۔مصنف کا کہنا ہے کہ ’’خدا کو میزان کے دونوں پلڑے برابر ہی پسند ہیں،جبھی ابلیس کی صورت میں نفرت کا بھی جنم ہوا۔خدا کو انسان سے محبت تھی اور ابلیس کو انسان سے نفرت۔اور انسان ان دونوں جذبات سے ناآشنا اپنی جنت میں تھا۔جذبات کے مثلث میں محبت اور نفرت نے تو جگہ بنا لی مگر اس مثلث کا تیسرا کنارا خالی تھا۔خدا نے اس تیسرے کنارے کے لیے ہجر کو چنا اور انسان کو جنت سے کوچ کرنے کا حکم صادر ہو گیا۔‘‘
افسانہ’’کبھی اے حقیقتِ منتظر‘‘اور’’خوف کے ایک پل کے نام‘‘ کو نہایت مختصراً پیش کر کے قاری کو افسانوی دنیا سے کہیں بہت دور جا کھڑا کیا ہے۔جو کہ قاری کے ذوقِ طبع پر گراں گزرتا ہے۔ ’’خود فراموشی‘‘ اور ’’اعترافِ جرم‘‘ میں نرم دلوں کو مزید موم کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے جس کی تعریف ہونی چاہئے۔یوں تو ’’فل اسٹاف‘‘بھی کامیاب تصنیفات ہیں جو اسی ایک نام سےمختلف چار تحاریرکتاب میں موجودہیں جبکہ عموماً ایسامصنف اور قارئین پسند نہیں کرتے۔ بلاشبہ مصنف ایک منجھے ہوئے افسانہ نگار ہیں اور عام واقعاتِ روز مرہ کے مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنا کر اپنے فن کو زندگی کا ترجمان بنا دیا ہے۔ایک اہم بات جس کا ذکر ناگزیر ہے، ہر ادب پارہ اپنے مخصوص ارتقائی خوبصورتی کا خوگر ہوتا ہے۔اور یہی مدثر حسین ملک کے ساتھ بھی ہوا ہے۔
آخرمیں گفتگو پبلیکیشنز ، اسلام آبادکو دادِ تحسین کہ جنہوں نے اس خوبصورت شاہ پارے کو مزید مزین کرتے ہوئے اپنی فکری کاوش کا اظہار کیا ہے۔سچ پوچھیے تواس سوشل میڈیا کے دور میں بھی اگر اس کتاب کا محض سرِ ورق دیکھ لیا جائے تو انسان اپنے وجود کے تیسرے کنارے کی جستجو میں کھو سا جاتا ہے۔