Tajahul e Arifana – تَجاہُلِ عارِفانَہ
Tajahul e Arifana – تَجاہُلِ عارِفانَہ
Regular price
Rs.1,000
Regular price
Rs.2,000
Sale price
Rs.1,000
Unit price
/
per
Tajahul e Arifana – تَجاہُلِ عارِفانَہ
جعفر عباس کا کلام ان کا تعارف بھی ہے اور ان کے قلم سے نکلے ہوئے اشعار ان کی آپ بیتی بھی ہیں۔ وہ اپنے دور کو کبھی اشعار بنا دیتے تھے اور کبھی کینو اس پر تصویر میں ڈھال دیتے تھے۔ انہیں اپنی بات کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی کہ ان کے الفاظ ان کی آواز بن جاتے تھے۔ کسی بھی بڑے شاعر کیلئے یہ بہت اعزاز کی بات ہوتی ہے اور یقینا جعفر صاحب کا کلام اس معیار پر پورا اترتا ہے۔ شاعری کی روایت میں ایسے بہت سے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے اپنے کلام اور طرز کلام سے ایک دور کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ جعفر عباس، ایسا ہی ایک منفر د نام ہے۔
“دعوت سنگ” کے بعد ” تجاہل عارفانہ” جعفر صاحب کا دوسرا مجموعہ کلام ہے۔ اگر چہ یہ مجموعہ ان کے انتقال کے بعد شائع ہو رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ان کے مجموعہ کلام کا نام ہی نہیں بلکہ یہ ان کی زندگی کا عکس بھی ہے۔ جعفر صاحب سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بنے رہتے تھے اور اُن کا یہ انجانا پن جب حرف سے ہوتا ہوا الفاظ، اور الفاظ کی رہ گزر سے ہوتا ہوا شعر کے قالب میں ڈھلتا ہے تو پڑھنے والا حیران رہ جاتا ہے کہ اس گمنام انسان میں کتنا بڑ فنکار چھپا بیٹھا ہے۔
جعفر صاحب ہر اس موضوع کو اپنے اشعار میں لاتے ہیں جو ادب کی تہذیب سے جُڑا ہو، اندر کے خیالات کی ترجمانی کر رہا ہو، موسم گل ہو یا ہجر کے درد بیان ہو، باہر کی دنیا اور بدلتے حالات کو بیان کر رہا ہو، قدرت یا قدرت کے محرکات کا بیان ہو یا کرب و بے بسی کی کیفیت اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اندر کا دکھ جب اشعار کے سانچے میں ڈھلے تو سننے والا حیران اور پڑھنے والا خود اس درد کو محسوس کرے۔ وہ اپنی دنیا میں مگن رہنے والے فرد تھے۔ تشہیر کا نہ انہیں شوق تھا اور نہ کبھی کوشش کرتے تھے، مگر ان کے اشعار کی زبان ان کے وجود کا احساس بن جاتی تھی۔ ان کے شعروں میں ان کا منفر د لہجہ حقیقتا ان کی شناخت ہے۔
جعفر عباس کا کلام ان کا تعارف بھی ہے اور ان کے قلم سے نکلے ہوئے اشعار ان کی آپ بیتی بھی ہیں۔ وہ اپنے دور کو کبھی اشعار بنا دیتے تھے اور کبھی کینو اس پر تصویر میں ڈھال دیتے تھے۔ انہیں اپنی بات کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی کہ ان کے الفاظ ان کی آواز بن جاتے تھے۔ کسی بھی بڑے شاعر کیلئے یہ بہت اعزاز کی بات ہوتی ہے اور یقینا جعفر صاحب کا کلام اس معیار پر پورا اترتا ہے۔ شاعری کی روایت میں ایسے بہت سے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے اپنے کلام اور طرز کلام سے ایک دور کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ جعفر عباس، ایسا ہی ایک منفر د نام ہے۔
“دعوت سنگ” کے بعد ” تجاہل عارفانہ” جعفر صاحب کا دوسرا مجموعہ کلام ہے۔ اگر چہ یہ مجموعہ ان کے انتقال کے بعد شائع ہو رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ان کے مجموعہ کلام کا نام ہی نہیں بلکہ یہ ان کی زندگی کا عکس بھی ہے۔ جعفر صاحب سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بنے رہتے تھے اور اُن کا یہ انجانا پن جب حرف سے ہوتا ہوا الفاظ، اور الفاظ کی رہ گزر سے ہوتا ہوا شعر کے قالب میں ڈھلتا ہے تو پڑھنے والا حیران رہ جاتا ہے کہ اس گمنام انسان میں کتنا بڑ فنکار چھپا بیٹھا ہے۔
جعفر صاحب ہر اس موضوع کو اپنے اشعار میں لاتے ہیں جو ادب کی تہذیب سے جُڑا ہو، اندر کے خیالات کی ترجمانی کر رہا ہو، موسم گل ہو یا ہجر کے درد بیان ہو، باہر کی دنیا اور بدلتے حالات کو بیان کر رہا ہو، قدرت یا قدرت کے محرکات کا بیان ہو یا کرب و بے بسی کی کیفیت اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اندر کا دکھ جب اشعار کے سانچے میں ڈھلے تو سننے والا حیران اور پڑھنے والا خود اس درد کو محسوس کرے۔ وہ اپنی دنیا میں مگن رہنے والے فرد تھے۔ تشہیر کا نہ انہیں شوق تھا اور نہ کبھی کوشش کرتے تھے، مگر ان کے اشعار کی زبان ان کے وجود کا احساس بن جاتی تھی۔ ان کے شعروں میں ان کا منفر د لہجہ حقیقتا ان کی شناخت ہے۔