Skip to product information
1 of 2

Syed Maududi – سید مودودیؒ

Syed Maududi – سید مودودیؒ

Regular price Rs.800
Regular price Sale price Rs.800
Sale Sold out
Syed Maududi – سید مودودیؒ
بعنوان سخن
مرتبہ : عبدالعزیز خان بھوپالی
پیش لفظ ۔ ڈاکٹر آفاق اختر
ماضی کے اوراق پلٹتے ہوۓ جب اپنی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو گھر کے باہر جس فرد نے سب سے زیادہ اثر ڈالا وہ سید مودودی‘ ہیں۔ سید صاحب سے تعارف ان کی کتابوں کے ذریعے ہوا۔ ان کی سلیس اردو، انداز بیان مضمون پر گرفت ، قاری سے خطاب ، ذخیرہ مواد اور زندگی کے انتہائی سنجیدہ مسائل پر روانی سے ایسے اسیر ہوۓ کہ آج تک بار بار پڑھنے کے باوجود ان کتابوں کی چاشنی اور لذت ختم نہیں ہوتی اور ایسا لگتا ہے اکیسویں صدی میں ان کی تحریر اور کتابوں کی اہمیت اپنے موضوع کے اعتبار سے بڑھتی چلی جاتی ہے۔
علم دوست اور قدرشناس ذیشان عثمانی صاحب نے مولانا مودودی پر لکھے جانے والے منظوم کلام کو کتابی شکل میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یقینا یہ کام اہم ہے اور مولانا کی زندگی میں ان کی علمی اور سیاسی کاموں پر اہل علم نے جس طرح نثر و نظم میں مولانا کوخراج تحسین پیش کیا ہے اس کا جمع کرنا اور کتابی شکل میں لانا ایک قابل ستائش کام ہے۔
سید مودودیؒ کی تحریر میں زندگی کے ہر طبقے پراثر انداز ہوئیں خاص طور پر نوجوانوں نے ان کے پیغام کوزندگی کا مقصد بنالیا۔ اس دور میں جب اشتراکیت اور سرمایہ داری عروج کے منازل طے کر رہی تھیں اسلام بظاہر مدرسوں تک محدود ہو گیا تھا اور ایک جامد مذہب کا روپ دھار چکا تھا۔ ایسے میں سید مودودی کی تحریر میں ایک تحریک کی صورت جد یا تعلیم یافتہ طبقے کے ذہنوں میں مسخر کرتی چلی گئیں اور اس دور کے بہت سے نوجوان ان کے دیے ہوۓ مقصد زندگی سے ایسے وابستہ ہوۓ کہ اس کے ہوکر رہ گئے ۔
مولانا نے اسلام کو نہ صرف ایک متبادل نظام زندگی کے پیش کیا بلکہ درسگاہوں اور مدرسوں سے لیکر ہزاروں ،سیاسی کارکنوں اور مؤثر طبقات کو اسلام کی حقانیت اور آج کے دور میں اس کے قابل عمل ہونے کا ایسا یقین دلایا کہ ان تمام طبقات کا دین اسلام پر اعتماد بحال ہوتا چلا گیا۔
مولانا مودودیؒ نے جہاں زندگی کے دیگر شعبوں کے لوگوں کو متاثر کیا وہیں ادیب اور شاعر بھی اپنی نثر اور نظم میں ان کی تحریر کے اثرات کی گرفت میں آتے چلے گئے ۔
ماہرالقادری ، اقبال عظیم، اعجاز رحمانی نعیم صدیقی ، رحمان کیانی ان میں سے چند ایک ہیں ۔
آج کے دور میں جہاں انسان ترقی کی نئی منزلیں طے کر رہا ہے اور جدید ٹیکنالوجی کی دریافت نے انسانی ذہانت کو چار چاند لگا دیئے ہیں و ہیں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ انسان اپنی اصل ، اپنے خالق اور خود اپنے آپ سے دور ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایسے میں اس الہامی پیغام کو جو مالک کا ئنات کی طرف سے ہم کو دیا گیا ہے اس سے دوبارہ رہنمائی لینے کی ضرورت ہے۔ سید مودودی کی تحریر میں آج بھی اندھیرے سے روشنی اور رہنمائی کا کام دے سکتی ہیں۔
آج کا مسلمان گو گرداب میں پھنسا ہوا ہے بظاہر محل اور مایوسی کا شکار ہے مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ ہمارے اسلاف دین کے حوالے سے جو کام کر چکے ہیں اس کی رہنمائی میں زندگی کے سفر کو کسی بھی دور میں روشن تر کیا جا سکتا ہے۔




View full details